• شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ
  • Sat-15-02-2025 / ہفتہ ١٥ - فیبروری - ٢٠٢٥
فالو کریں:

فتوی

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے CSD سے گاڑی قسطوں پر لی ، طریقہ کار یہ ہے کہ CSD کمپنی سے گاڑی نقد رقم ادا کرکے لیتی ہے اور پھر ہمیں قسطوں پردیتی ہے ۔CSD نے کمپنی سے گاڑی 1119000/ میں خریدی ہے اور مجھے پانچ سال کی اقساط میں /1510000 روپے میں دی ، 151000 روپے میں نے ایڈوانس دئے جبکہ باقی رقم 60 اقساط میں ادا کر رہا ہوں ، جوکہ 25360 روپے ماہوار قسط بنتی ہے اس دوران اگر گاڑی کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو CSD قیمت میں اضافہ نہیں کرتی بلکہ وہی قیمت اور وہی اقساط رہتی ہیں ۔ پوچھنا یہ تھا کہ اس صورت میں جو اضافی رقم میں ادا کر رہا ہوں کیا یہ سود میں شمار ہوگا یا نہیں ؟ یعنی بصورت ادھار قیمت میں اضافہ قیمت شمار ہوگا یا سود ؟ وضاحت: CSD کے پاس گاڑیاں پہلے سے ملکیتا موجود ہوتی ہیں ، ہمارے آرڈر پر نہیں خریدی جاتی کہ پھر ہمیں خریدنا لازم ہو جائے ۔

الجواب حامدا و مصلیا واضح رہے کہ کسی چیز کو ادھار فروخت کرنے کی صورت میں نقد فروخت کرنے کے مقابلہ میں قیمت زیادہ مقرر کرنا شرعاً جائز ہے درج ذیل شرائط کے ساتھ : 1. فروخت کنندہ اور خریدار سودے کی مجلس ہی میں سودے کے نقد و ادھار ہونے میں سے کسی ایک شق پر اتفاق کر لیں ۔ 2. مکمل قیمت کا تعین کر لیں ۔ 3. قسطوں کی صورت میں تمام اقساط کی تعیین کر لیں ۔ 4. مدت کی تعیین کر لیں ۔ 5. قسط کی ادائیگی میں تقدیم و تاخیر سے مقرر کردہ قیمت میں کمی بیشی نہ کی جائے ۔ لہذا صورت مسئولہ میں ذکر کردہ معاملہ میں اگر درج بالا شرائط موجود ہیں تو یہ معاملہ شرعاً جائز ہے اور بصورت ادھار قیمت نقد کے اعتبار سے قیمت زیادہ مقرر کرنا جائز ہے ، سود نہیں ہے ۔ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے : ( وصح بثمن حال) و ھو الاصل ( و مؤجل الیٰ معلوم ) لئلا یفضی الی النزاع ( علی ھامشۃ ردالحتار ، کتاب البیوع ، ج: 7 ،ص : 49 ۔ ط : رشیدیہ ) فتاویٰ شامی میں ہے : لان للاجل شبھا بالبیع ، الا تریٰ انہ یزاد فی الثمن لاجلہ و الشبھۃ ملحقۃ بالحقیقۃ فصار کانہ ۔۔۔ لان الاجل فی نفسہ لیس بمال فلا یقابلہ شیء اذا لم یشترط زیادۃ الثمن بمقابلتہ قصدا و یزاد الثمن لاجلہ اذا ذکر الاجل بمقابلۃ زیادۃ الثمن قصدا ً کتاب البیوع ، ج: 7، ص : 375 ط : رشیدیہ )

-->