- 0092-3326522344
- info@qasimululoommultan.com
- بینک اکاؤنٹ: 05424145803518

فتوی
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم ایک پلازہ میں کام کرتے ہیں جو کہ ایک جامع مسجد قریب ہے،اگر وہاں جایا جائے تو کوئی دقت نہیں ہے ، لیکن نماز کے وقت پر تقریباً آٹھ دس لوگ وہیں نماز کےلئے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور پلازہ میں ہی نماز با جماعت پڑھ لیتے ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارااس طرح نماز پڑھنا جائز ہے ، یا مسجد میں ہی جاکر جماعت میں شامل ہونا ضروری ہے ؟ قرآن وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرما کر ممنون فرمائیں
الجواب حامداً و مصلیاً مسئلہ کی وضاحت سےپہلے اصولی طور پر یہ بات ذہن نشین فرمالیں، کہ نماز کےلئےمسجدمیں جانا الگ واجب ہے اور نمازباجماعت ادا کرناالگ واجب ہے اور باجماعت نماز ادا کرنے پر جوپچیس اور ایک حدیث کے مطابق ستائیس نمازوں کے ثواب کی فضیلت آئی ہے، وہ مسجد کی باجماعت نماز کےساتھ خاص ہے، اسی وجہ سے مسجد کی باجماعت نماز چھوڑنے پر متعدد احادیث میں وعید آئی ہے۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں مسجدقریب ہونے کے باوجود بغیرکسی شرعی عذر کےمسجد کی جماعت کی نماز چھوڑنا جائز نہیں اور پلازہ میں با جماعت نماز پڑھنے سے اگرچہ فرض کی ادائیگی تو ہوجائےگی، لیکن مسجدمیں باجماعت پڑھنے کی فضیلت سے محرومی ہوگی، اس لئے حتی الامکان مسجدمیں جاکرباجماعت نمازاداکرنی چاہیے۔ مسند احمد میں ہے : عن معاذ بن جبل ان النبی ﷺ قال :" ان الشیطان ذئب الانسان کذئب الغنم ، یاخذ الشاۃ القاصیۃ فایاکم والشعاب و علیکم بالجماعۃ و العامۃ و المسجد". (ج :6 ص : 307 ط : داراحیاء التراث العربی بیروت) مشکوۃ المصابیح میں ہے : عن ابن مسعود ان النبی ﷺ قال لقوم یتخلفون عن الجمعۃ : لقد ھممت ان آمر رجلا یصلی بالناس ، احرق علی رجال یتخلفون عن الجمعۃ بیوتھم ، رواہ المسلم ۔ (کتاب الصلٰوۃ ، باب وجوبھا 1/ 121 ط : قدیمی ) حدیث مبارک میں ہے : عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «ما توطن رجل مسلم المساجد للصلاة والذكر، إلا تبشبش الله له، كما يتبشبش أهل الغائب بغائبهم إذا قدم عليهم» وفي إعلاء السنن : فثبت من قولھم بوجوب الاجابۃ بالقدم وجوب اتیان المسجد للجماعۃ ۔۔۔۔ لان حدیث ابن عباس مرفوعا : " من سمع الاذان فلم یجب فلاصلوٰۃ الا من عذر قلت : دل كلامه علی أن وجوب إتيان مسجده كوجوب الجماعة۔۔۔۔۔ قلت : وهذا صريح في أن وجوب الجماعة إنما يتأدی بجماعة المسجد، لا بجماعة البيوت ، و نحوها . . . . فالصحيح أن الجماعة واجبة مع وجوب إتيانها في المسجد و من أقامها في البيت وهو يسمع النداء فقد أساء و أثم والله سبحانہ وتعالیٰ أعلم . (کتاب الصلوٰۃ ، ابواب الجماعۃ ، ج:4 ص : 165،166 ط: ادارۃ القرآن و العلوم الاسلامیۃ کراچی) فتاویٰ شامی میں ہے: وإن لم يكن لمسجد منزله مؤذن فإنه يذهب إليه ويؤذن فيه ويصلي وإن كان واحدا لأن لمسجد منزله حقا عليه ، فيؤدي حقه مؤذن مسجد لا يحضر مسجده أحد ، قالوا : هو يؤذن ويقيم ويصلي وحده ، وذاك أحب من أن يصلي في مسجد آخر ثم ذكر ما مر عن الفتح ، ولعل ما مر فيما إذا صلى فيه الناس فيخير ، بخلاف ما إذا لم يصلي فيه أحد لأن الحق تعين عليه وعلى كل. ( کتاب الصلوٰۃ ،1/555 ط : سعید کراچی) فتاویٰ عالمگیری میں ہے : المسجد إذا كان له إمام معلوم وجماعة معلومة في محله فصلى أهله فيه بالجماعة . (کتاب الصلوٰۃ ، الباب الخامس فی الامامۃ 1/83 ط: رشیدیہ ) فقط واللہ اعلم